گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم
بے نیازی کے بادشا ہیں ہم
چشم تحقیر سے ہمیں مت دیکھ
خاک تو ہیں پہ توتیا ہیں ہم
آہ اس عمر بے بقا کی طرح
رہرو کشور فنا ہیں ہم
ایسا بے برگ و بے نواہی کون
جیسے بے برگ و بے نوا ہیں ہم
گو ہمیں تو کبھی نہ یاد کرے
پر تری یاد میں سدا ہیں ہم
مبتلا اس بلا میں کوئی نہ ہو
جس بلا میں کہ مبتلا ہیں ہم
مار کر بھی ہمیں پہ پچھتایا
بے وفا تو کہ بے وفا ہیں ہم
جبہہ سائی سے دشمنی ہے جسے
اسی کے در پہ جبہہ سا ہیں ہم
کون رہبر ہو عشق کی رہ میں
آپ ہی اپنے رہنما ہیں ہم
ہیں تو صورت پرست آئینہ دار
نیک معنی سے آشنا ہیں ہم
اور دیوانہ کون ہے ؔجوشش
یا دوانا تھا قیس یا ہیں ہم
غزل
گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم
جوشش عظیم آبادی