گو اس سفر میں تھک کے بدن چور ہو گیا
میں اس کی دسترس سے مگر دور ہو گیا
اب اس کا نام لے کے پکاریں اسے کہاں
صحرا بھی اب تو خلق سے معمور ہو گیا
کیوں اس نے ہاتھ کھینچ لیا میرے قتل سے
کیوں مجھ پہ رحم کھا کے وہ مغرور ہو گیا
سب اپنے اپنے گھر میں نظر بند ہو گئے
اب شہر پر سکون ہے مشہور ہو گیا
قسمت نے لا کے اس کو کھڑا کر دیا کہاں
آئینہ دیکھنے پہ وہ مجبور ہو گیا
غزل
گو اس سفر میں تھک کے بدن چور ہو گیا
فرخ جعفری