گو حسن کی صورت ہیں مری سمت رواں بھی
اک خواب سی لگتی ہیں مجھے روشنیاں بھی
کچھ اپنی کہو ڈوبتے تاروں کو نہ دیکھو
شاید نہ ملے پھر یہ نشاط گزراں بھی
سوچا تھا کہ لوٹوں تری فرقت کے خزینے
دیکھا نہ گیا تیرے بچھڑنے کا سماں بھی
کچھ دل بھی ہے میرا غم ایام سے بوجھل
کچھ شام کی دہلیز سے اٹھتا ہے دھواں بھی
کس اجنبی رہرو کے تعاقب میں چلا ہے
پائے گا نہ تو ریت پہ قدموں کے نشاں بھی
کرتا ہوں کبھی چشم تخیل سے نظارہ
ہوتا ہے کبھی تجھ پہ محبت کا گماں بھی
تو حاصل منزل بھی مرا راہنما بھی
تو مجھ سے گریزاں بھی قریب رگ جاں بھی
غزل
گو حسن کی صورت ہیں مری سمت رواں بھی
جمیل یوسف