گریہ، مایوسی، غم ترک وفا کچھ نہ رہا
زندگی رہ گئی جینے کا مزا کچھ نہ رہا
روشنی تھی تو ہر اک شے کی حقیقت تھی عیاں
تیرگی میں مری آنکھوں کے سوا کچھ نہ رہا
پیرہن رنگ برنگے نکل آئے اتنے
نو دمیدہ گل شبو میں چھپا کچھ نہ رہا
کھا گئی خاک کو ہی خاک کریں کسی سے گلہ
کیا کریدیں کہ تہ خاک چھپا کچھ نہ رہا
تیرے ملنے کے ڈھنگ بھی تسلیم مگر
ذائقہ اس طرح بدلا کہ مزا کچھ نہ رہا
کیوں نہ ہو حشر بپا داد وفا کیوں نہ ملے
جب ترے چاہنے والوں کے سوا کچھ نہ رہا
کیوں نہ مہمانوں کے کمرے میں سجائیں ان کو
علم کا نام کتابوں کے سوا کچھ نہ رہا
خوشبوئے وصل توجہ کا وہ عالم وہ خلوص
ڈوبتے چاند کی آغوش میں کیا کچھ نہ رہا
غزل
گریہ، مایوسی، غم ترک وفا کچھ نہ رہا
کشور ناہید