EN हिंदी
گرتا رہا میں راہ میں لیکن سنبھل گیا | شیح شیری
girta raha main rah mein lekin sambhal gaya

غزل

گرتا رہا میں راہ میں لیکن سنبھل گیا

ؔآدتیہ پنت ناقد

;

گرتا رہا میں راہ میں لیکن سنبھل گیا
میں آج کس مقام کی جانب نکل گیا

سوچا کیا تھا راہ یہ آسان ہے مگر
پہلے قدم پہ پاؤں مرا کیوں پھسل گیا

ادنیٰ سا اک فریب تھا بدلا جو یہ لباس
آفت تو تب پڑی کہ میں جب خود بدل گیا

آنکھیں تھی شرمسار کہیں چین بھی نہیں
اس کے مگر خیال سے یہ دل بہل گیا

ہو گر خطا سزا کا مقرر ہے ایک دن
ناقدؔ زہے نصیب کہ وہ وقت ٹل گیا