EN हिंदी
گرنے کا بہت ڈر ہے اے دل نہ پھسل جانا | شیح شیری
girne ka bahut Dar hai ai dil na phisal jaana

غزل

گرنے کا بہت ڈر ہے اے دل نہ پھسل جانا

جمیلہ خدا بخش

;

گرنے کا بہت ڈر ہے اے دل نہ پھسل جانا
اس بام محبت پر مشکل ہے سنبھل جانا

دل میری سنے کیوں کر سمجھاؤں اسے کیا میں
وحشت نے سکھایا ہے قابو سے نکل جانا

وہ تیرے فقیروں کو آنکھوں سے ذرا دیکھے
جس نے نہیں دیکھا ہے قسمت کا بدل جانا

دکھلاؤ رخ زیبا تا مجھ کو قرار آئے
آساں نہیں عاشق کا باتوں میں بہل جانا

کمزور کیا مجھ کو اب ضعف نقاہت نے
اے عشق ذرا میرے پہلو کو بدل جانا

جلنا تمہیں اس دل کا میں آج دکھاؤں گا
تم نے نہیں دیکھا ہے اک پرچے کا جل جانا

عاشق تری محفل سے اٹھتا ہے یہی کہہ کر
یاں مجمع دشمن ہے اب چاہیے ٹل جانا

سر گشتگئ عاشق کیا تم کو بتاؤں میں
تقدیر بدلنا ہے آنکھوں کا بدل جانا

نادان طبیبوں کو کیا نبض دکھاؤں میں
آزار محبت کو سودا کا خلل جانا

وحشت ہے فزوں دل کی تنہا نہ چلا جائے
لازم ہے جمیلہؔ اب صحرا کو نکل جانا