گرنا نہیں ہے اور سنبھلنا نہیں ہے اب
بیٹھے ہیں رہ گزار پہ چلنا نہیں ہے اب
پچھلا پہر ہے شب کا سویرے کی خیر ہو
بجھتے ہوئے چراغ ہیں جلنا نہیں ہے اب
ہے آستیں سے کام نہ دامن سے کچھ غرض
پتھر بنے ہوئے ہیں پگھلنا نہیں ہے اب
منظر ٹھہر گیا ہے کوئی دل میں آن کر
دنیا کے ساتھ اس کو بدلنا نہیں ہے اب
لب آشنائے حرف تبسم نہیں رہے
دل کے لہو کو اشک میں ڈھلنا نہیں ہے اب

غزل
گرنا نہیں ہے اور سنبھلنا نہیں ہے اب
مغنی تبسم