گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے
پرندہ بھی شکاری کی سپاری لے کے نکلا ہے
نکلنے والا یہ کیسی سواری لے کے نکلا ہے
مداری جیسے سانپوں کی پٹاری لے کے نکلا ہے
بہر قیمت وفاداری ہی ساری لے کے نکلا ہے
ہتھیلی پر اگر وہ جان پیاری لے کے نکلا ہے
سفاری سوٹ میں ٹاٹا سفاری لے کے نکلا ہے
وہ لیکن ذہن و دل پر بوجھ بھاری لے کے نکلا ہے
یقیناً ہجرتوں کی جانکاری لے کے نکلا ہے
اگر اپنے ہی گھر سے بے قراری لے کے نکلا ہے
کھلونے کی تڑپ میں خود کھلونا وہ نہ بن جائے
مرا بچہ سڑک پر ریز گاری لے کے نکلا ہے
اگر دنیا بھی مل جائے رہے گا ہاتھ پھیلائے
عجب کشکول دنیا کا بھکاری لے کے نکلا ہے
خطا کاری مری امید وار دامن رحمت
مگر مفتی تو قرآن و بخاری لے کے نکلا ہے
جھلکتا ہے مزاج شہریاری ہر بن مو سے
بظاہر خیرؔ حرف خاکساری لے کے نکلا ہے

غزل
گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے
رؤف خیر