EN हिंदी
گرفت کرب سے آزاد اے دل ہو ہی جاؤں گا | شیح شیری
giraft-e-karb se aazad ai dil ho hi jaunga

غزل

گرفت کرب سے آزاد اے دل ہو ہی جاؤں گا

ندیم سرسوی

;

گرفت کرب سے آزاد اے دل ہو ہی جاؤں گا
ابھی رستہ ہوں میں اک روز منزل ہو ہی جاؤں گا

اتر جانے دے وحشت میرے سر سے حبس خلوت کی
میں بالتدریج پھر مانوس محفل ہو ہی جاؤں گا

گرے گر مجھ پہ برق التفات چشم تر ہر دم
تو میں بالجبر تیری سمت مائل ہو ہی جاؤں گا

بصد ترکیب رکھے ہیں قدم ترتیب سے میں نے
اگر ترتیب یہ بگڑی میں زائل ہو ہی جاؤں گا

متاع جاں تو میری ذات کا حصہ ہے اک دن میں
تو مل جائے گا تو انسان کامل ہو ہی جاؤں گا

مری مظلومیت کی روشنی ہر سو بکھرنے دے
سر مقتل میں پیش تیغ قاتل ہو ہی جاؤں گا

ذرا سا ٹھہر جائیں بے خودی کی مضطرب موجیں
اے دشت غم میں اک خاموش ساحل ہو ہی جاؤں گا

پیمبر درد کا بن کے تو گر دنیا میں آئے گا
صحیفہ بن کے اشکوں کا میں نازل ہو ہی جاؤں گا

کہا اس نے قریب آ کر ندیمؔ اشعار کی صورت
رگ افکار میں تیری میں شامل ہو ہی جاؤں گا