گرانئ شب ہجراں دو چند کیا کرتے
علاج درد ترے دردمند کیا کرتے
وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے
یہ فرق دست عدو کے گزند کیا کرتے
جگہ جگہ پہ تھے ناصح تو کو بہ کو دلبر
انہیں پسند انہیں ناپسند کیا کرتے
ہمیں نے روک لیا پنجۂ جنوں ورنہ
ہمیں اسیر یہ کوتہ کمند کیا کرتے
جنہیں خبر تھی کہ شرط نواگری کیا ہے
وہ خوش نوا گلۂ قید و بند کیا کرتے
گلوئے عشق کو دار و رسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے ترے سر بلند کیا کرتے
غزل
گرانئ شب ہجراں دو چند کیا کرتے
فیض احمد فیض