EN हिंदी
گر کے قدموں پہ سر بزم تڑپنا دیکھا | شیح شیری
gir ke qadmon pe sar-e-bazm taDapna dekha

غزل

گر کے قدموں پہ سر بزم تڑپنا دیکھا

شنکر لال شنکر

;

گر کے قدموں پہ سر بزم تڑپنا دیکھا
مرنے والے کا مری جان تماشا دیکھا

اک جہاں تیرا تماشائی ہے سب کو ہے خبر
آئینہ دیکھ کے مجھ کو یہ بتا کیا دیکھا

کھول کر نامہ مرا اس نے پڑھا بھی کہ نہیں
نامہ بر میری طرف سے اسے کیسا دیکھا

دل جسے کہتے ہیں پہلو میں کبھی وہ ہوگا
ہم نے تو دل کی جگہ داغ تمنا دیکھا

کون کہتا ہے کہ شہرت ترے عاشق کی نہیں
اس کو تو کوچہ و بازار میں رسوا دیکھا

آئینہ خانے میں نکلا نہ کوئی تیرا جواب
یہی کہتا تھا محبت کا تقاضا دیکھا

تم تو مصروف رہے حسن کی آرائش میں
ہم نے آئینے میں کل اک ستم آرا دیکھا

جل گیا طور گرے حضرت موسیٰ غش میں
کیا کلیجہ تھا کہ جس نے ترا جلوہ دیکھا

عشق کی یہ بھی کرامت ہے اگر تم سمجھو
تم نے اپنا مری آنکھوں میں سمانا دیکھا

ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھ رہا تھا تم کو
تم نے شنکرؔ کا بھی محفل میں تماشا دیکھا