گر گئے جب سبز منظر ٹوٹ کر
رہ گیا میں اپنے اندر ٹوٹ کر
سو رہے تھے شہر بھی جنگل بھی جب
رو رہا تھا نیلا امبر ٹوٹ کر
میں سمٹ جاؤں گا خود ہی دوستو
میں بکھر جاتا ہوں اکثر ٹوٹ کر
اور بھی گھر آندھیوں کی زد میں تھے
گر گیا اس کا ہی کیوں گھر ٹوٹ کر
رو رہا ہے آج بھی تقدیر پر
سبز گنبد سے وہ پتھر ٹوٹ کر
اب نہیں ہوتا مجھے احساس کچھ
میں ہوں اب پہلے سے بہتر ٹوٹ کر
چند ہی لمحوں میں تابشؔ بہہ گیا
میری آنکھوں سے سمندر ٹوٹ کر
غزل
گر گئے جب سبز منظر ٹوٹ کر
ظفر تابش