گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم 
ارے ثانیؔ کہاں گھر آ گئے تم 
کہانی ختم ہونے جا رہی تھی 
نیا اک موڑ لے کر آ گئے تم 
ہنسی میں ٹالنے ہی جا رہا تھا 
مری آنکھوں میں کیوں بھر آ گئے تم 
زمانہ تاک میں بیٹھا ہوا تھا 
زمانے بھر سے بچ کر آ گئے تم 
میں جی لوں گا اسی اک پل میں جیون 
کہ جس پل میں میسر آ گئے تم 
مرے سینے پہ اپنا بوجھ رکھنا 
اگر بانہوں میں تھک کر آ گئے تم 
دعا میں ہاتھ تھکتے جا رہے تھے 
ابھی گرتے کہ یکسر آ گئے تم 
ہمارا ظرف تھا سو چپ رہے ہم 
مگر آپے سے باہر آ گئے تم 
بسا اوقات تم کو بھول رکھا 
مگر یادوں میں اکثر آ گئے تم 
ابھی تم سے ہی ملنے آ رہا تھا 
چلو اچھا ہوا گر آ گئے تم 
محبت کی وکالت کر رہے ہو 
تو کیا ثانیؔ سے مل کر آ گئے تم
        غزل
گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم
وجیہ ثانی

