EN हिंदी
گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم | شیح شیری
gile shikwe ke daftar aa gae tum

غزل

گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم

وجیہ ثانی

;

گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم
ارے ثانیؔ کہاں گھر آ گئے تم

کہانی ختم ہونے جا رہی تھی
نیا اک موڑ لے کر آ گئے تم

ہنسی میں ٹالنے ہی جا رہا تھا
مری آنکھوں میں کیوں بھر آ گئے تم

زمانہ تاک میں بیٹھا ہوا تھا
زمانے بھر سے بچ کر آ گئے تم

میں جی لوں گا اسی اک پل میں جیون
کہ جس پل میں میسر آ گئے تم

مرے سینے پہ اپنا بوجھ رکھنا
اگر بانہوں میں تھک کر آ گئے تم

دعا میں ہاتھ تھکتے جا رہے تھے
ابھی گرتے کہ یکسر آ گئے تم

ہمارا ظرف تھا سو چپ رہے ہم
مگر آپے سے باہر آ گئے تم

بسا اوقات تم کو بھول رکھا
مگر یادوں میں اکثر آ گئے تم

ابھی تم سے ہی ملنے آ رہا تھا
چلو اچھا ہوا گر آ گئے تم

محبت کی وکالت کر رہے ہو
تو کیا ثانیؔ سے مل کر آ گئے تم