گلہ ترے فراق کا جو آج کل نہیں رہا
تو کیوں بھلا یہ مستقل عذاب ٹل نہیں رہا
میں کس سے التجا کروں کہاں سے ابتدا کروں
دعا اہل رہی نہیں گلہ بدل نہیں رہا
میں راستوں کی بھیڑ میں کہاں یہ آ گیا کہ اب
کوئی بھی راستہ تری گلی نکل نہیں رہا
وہ نقش پا کو دیکھ کر چلا ہو مجھ کو ڈھونڈنے
اسی گمان کے عوض میں تیز چل نہیں رہا
فقط یہی ہے آرزو تو مل کہیں تو روبرو
یہ دل ترے فراق میں کہیں سنبھل نہیں رہا
غزل
گلہ ترے فراق کا جو آج کل نہیں رہا
عارف اشتیاق