گلہ نہیں کہ مخالف مرا زمانہ ہوا
میں خود ہی چھوڑ کے کار جہاں روانہ ہوا
میں اب چلا کہ مرا قافلہ روانہ ہوا
کبھی پھر آؤں گا واپس جو آب و دانہ ہوا
میں بالمشافہ نہیں جانتا کسی کو یہاں
کہ مجھ سے میرا تعارف بھی غائبانہ ہوا
ہوائے گل بھی نہ پیروں کی بن سکی زنجیر
بہار میں بھی نہ اب کے کوئی دوانہ ہوا
جو ریگ زیر قدم آئی بن گئی سبزہ
غبار سر پہ جو آیا تو شامیانہ ہوا
کسی کو نوک سناں بھی ضمیر کی نہ چبھی
کسی کو ایک اشارہ ہی تازیانہ ہوا
زمانہ کھنچ کے نہ کیوں اس کے پاس جائے گا
وہ عالی جاہ ہوا صاحب خزانہ ہوا
برس رہی ہے مری چشم نم تو برسوں سے
تہی نہ ابر گہربار کا خزانہ ہوا
نظر میں سب کا یہ منظر سمیٹ لو محسنؔ
سحر قریب ہے اب ختم یہ فسانہ ہوا
غزل
گلہ نہیں کہ مخالف مرا زمانہ ہوا
محسن زیدی