EN हिंदी
گلہ اے دل ابھی سے کرتا ہے | شیح شیری
gila ai dil abhi se karta hai

غزل

گلہ اے دل ابھی سے کرتا ہے

محمد علی جوہرؔ

;

گلہ اے دل ابھی سے کرتا ہے
عشق کا دم اسی پہ بھرتا ہے

جان دیتا ہے عیش فانی پر
بس اسی زندگی پہ مرتا ہے

راحت جاوداں کو بھول گیا
کوئی دنیا میں یہ بھی کرتا ہے

عشق بن کر جئے تو خاک جیے
زندہ وہ ہے جو ان پہ مرتا ہے

نام پر اس کے سب جو دے بیٹھا
وہی اک ہے جو نام کرتا ہے

وقف مومن ہے آزمائش عشق
اس میں پورا وہی اترتا ہے

جس کو دنیا نے نامراد کیا
وہی ناکام کام کرتا ہے

ہے مسلماں کی بس یہی پہچان
کہ فقط اک خدا سے ڈرتا ہے

قول مومن ہے اس کے فعل کی شرح
وہ جو کہتا ہے کر گزرتا ہے

مطمئن رہ دلا وہ جان جہاں
وعدہ کر کے کہیں مکرتا ہے

میرے رنگ کفن کی شوخی دیکھ
یوں ہی عاشق ترا سنورتا ہے

آج کر لو جو کر سکو کل تک
کون جیتا ہے کون مرتا ہے

قلزم عشق میں گرا سو گرا
اس کا ڈوبا کہیں ابھرتا ہے

اس قدر احتیاط اے صیاد
کہ قفس میں بھی پر کترتا ہے

وہی دن ہے ہماری عید کا دن
جو تری یاد میں گزرتا ہے

مئے اسلام کا بھلا جوہرؔ
نشہ چڑھ کر کہیں اترتا ہے