گل کا وہ رخ بہار کے آغاز سے اٹھا
شعلہ سا عندلیب کی آواز سے اٹھا
نو دست زخمہ ور نے مٹا دی حد کمال
پردے جلے تمام دھواں ساز سے اٹھا
جیسے دعائے نیم شبی کا سرود ہو
اک شور میکدے میں اس انداز سے اٹھا
محضر لیے جنوں میں سوال و جواب کا
پردہ سا ایک دیدۂ غماز سے اٹھا
باقی ابھی ہے تنگی و وسعت میں ایک فرق
اس کو بھی جنبش لب اعجاز سے اٹھا
عصیاں سرشت و پاکیٔ داماں کی اک دلیل
کیا لطف حسن تفرقہ پرداز سے اٹھا
وہ شخص تھا مرقع مانی کی ایک ضد
رنگ ہزار حسن جنوں ساز سے اٹھا
کانٹے زمیں سے اور زیادہ ہوئے طلوع
اک مسئلہ بہار کے آغاز سے اٹھا
بنتی متاع کشف تو کیا آئنے کی چھوٹ
لذت ہی کچھ اشارۂ ہم راز سے اٹھا
یا رب تو لاج رکھ مرے شوق فضول کی
دنیا ہے نیند میں مری آواز سے اٹھا
اک منظر کنارۂ بام اور دے گیا
پرتو سا کوئی اس کے در باز سے اٹھا
میں کیا کہ میرے بعد بھی جو لوگ واں گئے
کوئی نہ اس کی انجمن ناز سے اٹھا
مدنیؔ قفس میں صبح ہوئی اور اس کے بعد
دل سے دھواں بھی حسرت پرواز سے اٹھا
غزل
گل کا وہ رخ بہار کے آغاز سے اٹھا
عزیز حامد مدنی