EN हिंदी
گل ہے عارض تو قد یار درخت | شیح شیری
gil hai aariz to qadd-e-yar daraKHt

غزل

گل ہے عارض تو قد یار درخت

منور خان غافل

;

گل ہے عارض تو قد یار درخت
کب ہو ایسا بہاردار درخت

رشک سے اک نہال قد کے ترے
کٹ گئے جل گئے ہزار درخت

خواہش‌ سنگ تھی جو مجنوں کو
قبر پر بھی ہے میوہ دار درخت

کس کی وحشت نے خاک اڑائی ہے
دشت میں ہیں جو پر غبار درخت

دامن یار اس سے الجھے گا
ہو نہ گلشن میں خار دار درخت

نالۂ کوہکن سے جل اٹھے
تھے جو بالائے کوہسار درخت

دست رنگیں کا اس کے کشتہ ہوں
ہو حنا کا سر مزار درخت

جس جگہ دفن تھا یہ سوختہ جاں
نہ اگا واں سے زینہار درخت

زینت خانہ باغ کون ہے آج
سجدہ کرتے ہیں بار دار درخت

برگ ملتے ہیں جو کف افسوس
کس کے غم میں ہیں سوگوار درخت

گلشن عشق کا تماشا دیکھ
سر منصور پھل ہے دار درخت

دیکھیں گر تیرے قد کی بالائی
سر اٹھائیں نہ زینہار درخت

بے ثمر اک رہا یہ نخل مراد
یوں تو پھولے پھلے ہزار درخت

تیری دوری میں اے گل خوبی
سوکھ کر ہو گئے ہیں زار درخت

صف بہ صف ہیں کھڑے جو گلشن میں
کب سے باندھے ہوئے قطار درخت

دیکھتے ہیں سوئے در گلزار
کس کے ہیں محو انتظار درخت

موسم گل ہے جوش مستی ہے
لائے گلشن میں برگ و بار درخت

جی میں آتا ہے مے کشی کیجے
تاک کر کوئی سایہ دار درخت

عالم شیب میں ہوں یوں غافلؔ
باغ میں جیسے بے بہار درخت