EN हिंदी
گل بھیک میں لیتے ہیں جس پھول سے رعنائی | شیح شیری
gil bhik mein lete hain jis phul se ranai

غزل

گل بھیک میں لیتے ہیں جس پھول سے رعنائی

شجاع

;

گل بھیک میں لیتے ہیں جس پھول سے رعنائی
ہم کو بھی میسر ہے اس نام سے تنہائی

دونوں کے مقدر کی گردش ہی نرالی ہے
یہ قلب تھکا ہارا وہ لالۂ صحرائی

کیوں خلق کا شوق آیا کوئی کبر سے جا پوچھے
کیا چیز تھی تنہائی؟ کیا خوب تھی یکتائی؟

یک طرفہ محبت کا ہر رنگ نرالا ہے
بیگانہ کرے جگ سے یہ رحمت رسوائی

تڑپے ہیں ملائک بھی وہ قہر تھا آنکھوں میں
دیکھا ترا شیدائی تو موت بھی گھبرائی

دم سادھے وہ شب آیا اک دیپ جلا لایا
تربت پہ اسیروں کی بجتی رہی شہنائی