گیت کے بعد بھی گائے جاؤں
اپنی آواز سنائے جاؤں
کوئی ایسا ہو کہ دیکھے جائے
میں جہاں تک نظر آئے جاؤں
اس ہوس میں کہ اندھیرا نہ رہے
گھر میں جو کچھ ہے جلائے جاؤں
پھیلتی جائے خموشی مجھ میں
اور میں شور مچائے جاؤں
اپنی آنکھوں کو شب و روز فروغؔ
خواب ہی خواب دکھائے جاؤں
غزل
گیت کے بعد بھی گائے جاؤں
رئیس فروغ