گھٹ کے مر جانے سے پہلے اپنی دیوار نفس میں در نکالو
درد کے ویراں کھنڈر سے منظر بے نام کو باہر نکالو
اب یہ عالم ہے کہ ہر سو ماورائے منتہا تک ہیں اڑانیں
آشیاں تو اک قفس ہے باہر آ بھی جاؤ بال و پر نکالو
خود تمہارے اپنے زد پر آ رہے ہیں اتنی سفاکی بھی چھوڑو
کچھ زیادہ ہو گیا ہے تیغ ارشادات سے جوہر نکالو
دیکھ لینا مات کھا جائے گا شہ پا کر یہ ٹیڑھا چلنے والا
چال الجھی ہے کوئی پیدل جمائے رکھو کوئی گھر نکالو
آنکھیں کھولو اب تو میرے زخم دل بھی مندمل ہونے لگے ہیں
مان جاؤ پھر کوئی تلوار اٹھاؤ پھر کوئی خنجر نکالو
تہہ نشیں موجوں کے پہرے سخت کر دیتا ہے قصر آب پر وہ
خون پانی کر کے اپنا پتھروں کی اوٹ سے گوہر نکالو
اب خدا جانے کہاں لے جا کے بکھرائے ہوائے وقت مجھ کو
آؤ ہاتھ اپنا بڑھا کر تم بھی میری خاک چٹکی بھر نکالو
کس لیے رمزؔ اتنی اونچی تم نے کر رکھی ہیں دیواریں ہنر کی
دیکھو اپنے ساتھیوں کو روزن خود آگہی سے سر نکالو
غزل
گھٹ کے مر جانے سے پہلے اپنی دیوار نفس میں در نکالو
محمد احمد رمز