گھس گھسا کر سہی رواں تو ہے
دل بڑھاپے میں بھی جواں تو ہے
گو مضامیں نہیں ہمارے پاس
شاعری کے لئے زباں تو ہے
راز تو نا ہوا جو بتلا دوں
ورنہ تو اچھا راز داں تو ہے
غصے میں عشق کو کہا گالی
اور تو کہہ رہی ہے ہاں تو ہے
تیری تصویر کھینچنے کے بعد
کیمرہ زیب داستاں تو ہے
عقل رہتی ہے غم جہاں سب کی
وہ بھی آخر کوئی جہاں تو ہے
ہو سیاسی یا چاہے جذباتی
سامعیں کے لئے بیاں تو ہے
چھوڑ کر جانے کا ہو فائدہ کیا
میری سوچوں میں کارواں تو ہے
کچھ خریداری کے لئے مژدمؔ
خواب میں ہے مگر دکاں تو ہے
غزل
گھس گھسا کر سہی رواں تو ہے
مژدم خان