گھرے ہیں چاروں طرف بیکسی کے بادل پھر
سلگ رہا ہے ستاروں بھرا اک آنچل پھر
بس ایک بار ان آنکھوں کو اس نے چوما تھا
ہمیشہ نم ہی رہا آنسوؤں سے کاجل پھر
یہ کیسی آگ ہے جو پور پور روشن ہے
یہ کس نے رکھ دی مری انگلیوں پہ مشعل پھر
پھر اب کی بار لہو رنگ بارشیں برسیں
کسی نے کاٹ دئے ہیں سروں کے جنگل پھر
رگوں میں تپتی ہوئی خوشبوئیں مچلنے لگیں
ملا بدن پہ نئے موسموں نے صندل پھر
کہیں تو ریت سے چشمہ نکل ہی آئے گا
بھٹک رہا ہے وہ کاندھوں پہ لے کے چھاگل پھر
پھر اس اکیلی بھری دوپہر نے جھلسا ہے
کہ یاد آنے لگا صبح سے وہ پاگل پھر

غزل
گھرے ہیں چاروں طرف بیکسی کے بادل پھر
رفیعہ شبنم عابدی