EN हिंदी
گھر کے گھبراتے نہ تھے ہجر کے آزاروں میں | شیح شیری
ghir ke ghabraate na the hijr ke aazaron mein

غزل

گھر کے گھبراتے نہ تھے ہجر کے آزاروں میں

میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

;

گھر کے گھبراتے نہ تھے ہجر کے آزاروں میں
جب کہ طاقت تھی کبھی آپ کے بیماروں میں

لے کے ہم دل گئے کہتے یہ جفا کاروں میں
کون لیتا ہے اسے اتنے خریداروں میں

دی رہائی مجھے صیاد نے اے وائے نصیب
دخل جب فصل خزاں کا ہوا گلزاروں میں

میرے مرنے کا ہوا رنج ہر اک قیدی کو
کہ ہے کہرام بپا تیرے گرفتاروں میں

دست نازک سے مجھے جام دیا ساقی نے
آبرو بڑھ گئی اور آج سے مے خواروں میں

آتش ہجر سے کیا ڈر جو تری مرضی سے
رات کر دیں گے بسر لوٹ کے انگاروں میں

پھینک دینا نہ کہیں بھول کے ہنگام سحر
دل بھی لپٹا ہے انہیں سوکھے ہوئے ہاروں میں

نالۂ بلبل شیدا نہ جسے پھاند سکے
یہ بلندی تو نہیں باغ کی دیواروں میں

نکلا وہ تیر نگہ بھی تو یہ کہہ کر نکلا
میرا دامن نہ الجھ جائے کہیں خاروں میں

یوں سنائی گئی ہے اس کو خبر عالمؔ کی
مر گیا کوئی ترے تازہ گرفتاروں میں