گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں
میں اک گہرا سمندر بن گیا ہوں
تری یادوں کے انگاروں کو اکثر
تصور کے لبوں سے چومتا ہوں
کوئی پہچاننے والا نہیں ہے
بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہوں
مرا قد کتنا اونچا ہو گیا ہے
فلک کی وسعتوں کو ناپتا ہوں
وہ یوں مجھ کو بھلانا چاہتے ہیں
کہ جیسے میں بھی کوئی حادثہ ہوں
بدلتے موسموں کی ڈائری سے
ترے بارے میں اکثر پوچھتا ہوں
مرے کمرے میں یادیں سو رہی ہیں
میں سڑکوں پر بھٹکتا پھر رہا ہوں
ابھرتے ڈوبتے سورج کا منظر
بسوں کی کھڑکیوں سے دیکھتا ہوں
کسی کی یاد کے پتوں کو آزرؔ
ہواؤں سے بچا کر رکھ رہا ہوں
غزل
گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں
کفیل آزر امروہوی