EN हिंदी
گھٹائیں چھائی ہیں ساغر اٹھا لے جس کا جی چاہے | شیح شیری
ghaTaen chhai hain saghar uTha le jis ka ji chahe

غزل

گھٹائیں چھائی ہیں ساغر اٹھا لے جس کا جی چاہے

نواب معظم جاہ شجیع

;

گھٹائیں چھائی ہیں ساغر اٹھا لے جس کا جی چاہے
یہ مے خانہ ہے قسمت آزما لے جس کا جی چاہے

محبت کرنے والوں کا جہاں میں کون ہوتا ہے
کوئی اپنا نہیں ہم کو ستا لے جس کا جی چاہے

غم دوراں سے بچنا زندگی میں غیر ممکن ہے
غم جاناں کو سینے سے لگا لے جس کا جی چاہے

کسے ملتی ہے فرصت عمر بھر آنسو بہانے سے
کلی کی طرح دم بھر مسکرا لے جس کا جی چاہے

شجیعؔ اس زندگی میں ہم طلب گار محبت ہیں
محبت سے ہمیں اپنا بنا لے جس کا جی چاہے