گھٹائیں چھائی ہیں ساغر اٹھا لے جس کا جی چاہے
یہ مے خانہ ہے قسمت آزما لے جس کا جی چاہے
محبت کرنے والوں کا جہاں میں کون ہوتا ہے
کوئی اپنا نہیں ہم کو ستا لے جس کا جی چاہے
غم دوراں سے بچنا زندگی میں غیر ممکن ہے
غم جاناں کو سینے سے لگا لے جس کا جی چاہے
کسے ملتی ہے فرصت عمر بھر آنسو بہانے سے
کلی کی طرح دم بھر مسکرا لے جس کا جی چاہے
شجیعؔ اس زندگی میں ہم طلب گار محبت ہیں
محبت سے ہمیں اپنا بنا لے جس کا جی چاہے
غزل
گھٹائیں چھائی ہیں ساغر اٹھا لے جس کا جی چاہے
نواب معظم جاہ شجیع