گھٹا زلفوں کی جب سے اور کالی ہوتی جاتی ہے
رخ روشن کی تابانی مثالی ہوتی جاتی ہے
مرے بخت سیہ کے حاشیے پر روشنی سی ہے
مری تاریک شب کچھ پھر اجالی ہوتی جاتی ہے
اٹھے جاتے ہیں دیدہ ور سبھی آہستہ آہستہ
یہ دنیا معتبر لوگوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
وہ میری انجمن پر رنگ برساتے ہیں کچھ ایسا
کہ ہر گوشے کی اک اک شے نرالی ہوتی جاتی ہے
وہ جنسیت زدہ ماحول میں کیا اور پائے گا
جہاں پاکیزگی اک شے خیالی ہوتی جاتی ہے
عتیقؔ اس دل ربا کی ہر ادا برحق سہی لیکن
تمہاری کوشش پیہم بھی عالی ہوتی جاتی ہے

غزل
گھٹا زلفوں کی جب سے اور کالی ہوتی جاتی ہے
عتیق اثر