گھٹا ہے باغ ہے مے ہے سبو ہے جام ہے ساقی
اب اس کے بعد جو کچھ ہے وہ تیرا کام ہے ساقی
امید وصل رکھنا اک خیال خام ہے ساقی
برا تو کچھ نہیں لیکن مذاق عام ہے ساقی
فلک دشمن مخالف گردش ایام ہے ساقی
مگر ہم ہیں تری محفل ہے دور جام ہے ساقی
جو اپنی ہر نظر سے اک خدا تخلیق کرتے ہیں
انہیں دیر و حرم سی چیز سے کیا کام ہے ساقی
اداسی سرد آہیں کرب حسرت درد مجبوری
محبت تلخیوں کا ایک شیریں نام ہے ساقی
جنہیں شوق طلب ہے اور جنہیں ذوق تجسس ہے
انہیں کوہ و بیاباں منزل یک گام ہے ساقی
غزل
گھٹا ہے باغ ہے مے ہے سبو ہے جام ہے ساقی
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر