گھٹ گئی ہے قدر و قیمت آج کے انسان کی
ہم پہ غالب ہو گئیں مکاریاں شیطان کی
جس طرح بھی دیکھیے دہشت کا اک ماحول ہے
اک کھلونے کے برابر حیثیت ہے جان کی
اب دکاں بازار میں اہل خرد کی بند ہے
اب اجارہ داری ہے دانائی پر نادان کی
میں نے یہ سچائی جانی ہے بہت کھونے کے بعد
دوستی اچھی نہیں ہوتی کبھی نادان کی
زندگی کی مشکلوں کا حل ہے اپنا حوصلہ
کچھ اسی سے ہوتی ہے کھیتی ہری ارمان کی
زور باطل کو زمانے میں میسر ہے فروغ
آبرو خطرے میں ہے اب صاحب ایمان کی
زندہ رہنا آج کل خوشترؔ بہت دشوار ہے
بالادستی آج دیکھی جاتی ہے بلوان کی
غزل
گھٹ گئی ہے قدر و قیمت آج کے انسان کی
منصور خوشتر