گھر والے بھی سوئے ہیں ابھی شب بھی گھنی ہے
آ جانا مرے پیچھے جہاں ناگ پھنی ہے
رسوا ہوئی کچھ تیاگ کے تو پیار کے سمبندہ
کچھ باعث تشہیر مری بے وطنی ہے
سو بار مرا تیرا ملن موہ ہوا ہے
کس ناز کس انداز پہ تو اتنا تنی ہے
آنکھوں کا سبھاؤ ہے کہ صبحوں کی کنولتا
پلکوں کا جھکاؤ ہے کہ نیزے کی انی ہے
آخر کبھی طے ہوگا یونہی نت کا بچھڑنا
تجھ مجھ میں کئی جیونوں جنموں سے ٹھنی ہے
صرف اک سے محبت نہیں اب ٹھانی ہے دل نے
جو جی کو لبھائے وہی ہیرے کی کنی ہے
غزل
گھر والے بھی سوئے ہیں ابھی شب بھی گھنی ہے
ناصر شہزاد