گھر سے نکلے دیر ہوئی ہے گھر کو لوٹ چلیں
گونگی راتیں دھوپ کڑی ہے گھر کو لوٹ چلیں
دور سے تیرے میت آئے ہیں تجھ سے ریت نبھانے
روزن پر زنجیر پڑی ہے گھر کو لوٹ چلیں
دھیمے دھیمے آنچل والی آج بھی آس لگائے
دروازے پر آن کھڑی ہے گھر کو لوٹ چلیں
بستی بستی چرچا جن کا سنتے سنتے آئے
شہر میں آ کر بات کھلی ہے گھر کو لوٹ چلیں
کل چغتائیؔ ہم وحشی تھے آج بھی ہم دیوانے
کب سے اپنی آس لگی ہے گھر کو لوٹ چلیں
غزل
گھر سے نکلے دیر ہوئی ہے گھر کو لوٹ چلیں
زاہد حسن چغتائی