گھر سے نکل کے آئے ہیں بازار کے لئے
یہ بھیڑ بھاڑ اچھی ہے بیکار کے لئے
ہم یار کے لئے ہیں نہ دیدار کے لئے
ٹیرس پہ آ کے بیٹھے ہیں اخبار کے لئے
دل جوئی کر رہا ہے بہت دیر سے طبیب
کیا آخری دوا ہے یہ بیمار کے لئے
میں نے تو اس دیار میں سب کچھ لٹا دیا
دنیا سفر پہ جاتی ہے گھر بار کے لئے
میرے دل تباہ میں اتنی جگہ کہاں
اس نے جگہ نکالی ہے دیوار کے لئے
تم نے تو مانا جرم کا اقرار کر لیا
لیکن مجھے سزا ملی انکار کے لئے
اے ماہرو امید کی کوئی کرن تو ہو
ہم جیسے تیرگی کے گرفتار کے لئے
ایسا نہیں کہ شہر میں آسانیاں نہ ہوں
لیکن وہ سب ہیں لمحۂ دشوار کے لئے
غزل
گھر سے نکل کے آئے ہیں بازار کے لئے
رسول ساقی