گھر سے ہمیں جانے کی ضرورت نہیں اب کچھ
باہر کی ہوا آ کے بتا جاتی ہے سب کچھ
کیا تیز ہے یہ موسم باران سخن بھی
لب ریزیٔ دل کچھ ہے نوا خیزیٔ لب کچھ
کیا دام فسوں زندہ چراغوں کے لیے تھے
اندازۂ شب ہم کو ہوا آخر شب کچھ
عام اتنا رہا شہرۂ زر شور سرا میں
کام آئی نہیں نرمیٔ تہذیب و نسب کچھ
چپ ہیں کہ اک آشوب ملامت میں گھرے ہیں
آئے تھے سبک لہجے لیے خیر طلب کچھ
اک شخص سے پیمان بہت سوچ کے باندھا
پھر ہم نے تراشا نہیں رنجش کا سبب کچھ
اے ذی ہنراں تیز رواں عصر مریداں
ہم لوگ دعا گو ہیں ہمارا بھی ادب کچھ
غزل
گھر سے ہمیں جانے کی ضرورت نہیں اب کچھ
محشر بدایونی