EN हिंदी
گھر سے چیخیں اٹھ رہی تھیں اور میں جاگا نہ تھا | شیح شیری
ghar se chiKHen uTh rahi thin aur main jaga na tha

غزل

گھر سے چیخیں اٹھ رہی تھیں اور میں جاگا نہ تھا

عارف شفیق

;

گھر سے چیخیں اٹھ رہی تھیں اور میں جاگا نہ تھا
اتنی گہری نیند تو پہلے کبھی سویا نہ تھا

نشۂ آوارگی جب کم ہوا تو یہ کھلا
کوئی بھی رستہ مرے گھر کی طرف جاتا نہ تھا

کیا گلہ اک دوسرے سے بے وفائی کا کریں
ہم نے ہی اک دوسرے کو ٹھیک سے سمجھا نہ تھا

گل نہ تھے جس میں وہ گلشن بھی تھا جنگل کی طرح
گھر وہ قبرستان تھا جس میں کوئی بچہ نہ تھا

آسماں پر تھا خدا تنہا مگر عارف شفیقؔ
اس زمیں پر کوئی بھی میری طرح تنہا نہ تھا