EN हिंदी
گھر سے باہر نکل کر | شیح شیری
ghar se bahar nikal kar

غزل

گھر سے باہر نکل کر

عزیز انصاری

;

گھر سے باہر نکل کر
دنیا کو بھی دیکھا کر

فصلیں کاٹ برائی کی
اچھائی کو بویا کر

نیکی ڈال کے دریا میں
اپنے آپ سے دھوکا کر

سب کو پڑھتا رہتا ہے
اپنے آپ کو سمجھا کر

بوڑھے برگد کے نیچے
دل ٹوٹے تو بیٹھا کر

محفل محفل ہنستا ہے
تنہائی میں رویا کر

دنیا پیچھے آئے گی
دیکھ تو دنیا ٹھکرا کر

پڑھ کے سب کچھ سیکھے گا
دیکھ کے بھی کچھ سیکھا کر

دشمن ہوں یا دوست عزیزؔ
سب کو اپنا سمجھا کر