گھر میں صحرا ہے تو صحرا کو خفا کر دیکھو
شاید آ جائے سمندر کو بلا کر دیکھو
دشت کی آگ بڑی چیز ہے آنکھوں کے لیے
شہر بھی خوب ہی جلتا ہے جلا کر دیکھو
تم نے خوشبو سے کبھی عہد وفا باندھا ہے
روشنی کو کبھی بستر میں لٹا کر دیکھو
کس نے توڑا ہے زمیں اور قدم کا رشتہ
آج کی رات یہی کھوج لگا کر دیکھو
یہ برستے ہوئے بادل تو نہ سونے دیں گے
کوئی بچپن کی کہانی ہی سنا کر دیکھو
ہجر اچھا ہے نہ اب اس کا وصال اچھا ہے
اس لیے اور کہیں عشق لڑا کر دیکھو

غزل
گھر میں صحرا ہے تو صحرا کو خفا کر دیکھو
رئیس فروغ