گھر میں کیسا شفقستاں کا سماں تھا پہلے
موج صد رنگ میں بے خواب جہاں تھا پہلے
کس کھنڈر میں ہمیں محبوس ہوا لے آئی
شب کے سینے میں بھی محفوظ مکاں تھا پہلے
بادباں کشتیاں پھر موج ہوا کی رونق
کون کس حال میں اور کون کہاں تھا پہلے
زینۂ شام پہ رکھا ہے چراغ خستہ
جس کی رگ رگ میں رواں زرد دھواں تھا پہلے
اب طرف تا بہ طرف چھائی ہے بس گم شدگی
استعارہ ہے علامت ہے عیاں تھا پہلے

غزل
گھر میں کیسا شفقستاں کا سماں تھا پہلے
خمار قریشی