EN हिंदी
گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوں گی | شیح شیری
ghar mein jab beTiyan nahin hongi

غزل

گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوں گی

بلقیس خان

;

گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوں گی
پیڑ پر ٹہنیاں نہیں ہوں گی

غم سے سمجھوتا کر لیا دل نے
اب یہاں سسکیاں نہیں ہوں

میں کہ دور جدید کی لڑکی
پاؤں میں بیڑیاں نہیں ہوں گی

واپسی کا ہے سوچنا بے سود
اب جلی کشتیاں نہیں ہوں گی

اب دیوں کو بچانا واجب ہے
آندھیاں مہرباں نہیں ہوں گی

بارشوں کے سفر پہ نکلے ہو
سر پہ اب چھتریاں نہیں ہوں گی

یہ مسلسل رہیں گی میرے ساتھ
ہجر میں چهٹیاں نہیں ہوں گی

دست و بازو بنا ہے بھائی مرا
کوششیں رائیگاں نہیں ہوں گی

یا قلم ٹوٹ جائے گا بلقیسؔ
یا مری انگلیاں نہیں ہوں گی