EN हिंदी
گھر میں بیٹھوں تو شناسائی برا مانتی ہے | شیح شیری
ghar mein baiThun to shanasai bura manti hai

غزل

گھر میں بیٹھوں تو شناسائی برا مانتی ہے

طارق متین

;

گھر میں بیٹھوں تو شناسائی برا مانتی ہے
باہر آ جاؤں تو تنہائی برا مانتی ہے

میری نادانی دکھاتی ہے کرشمے جب بھی
صاحب وقت کی دانائی برا مانتی ہے

ماہ و انجم کی سواری پہ نکلتا ہوں جب
دشت افلاک کی پہنائی برا مانتی ہے

بحر کی تہہ میں اترتا ہوں خزانوں کے لئے
یہ الگ بات کہ گہرائی برا مانتی ہے

جب مرے زخم مہکتے ہیں تو طارقؔ صاحب
ابن دوراں کی مسیحائی برا مانتی ہے