گھر میں بیٹھوں تو شناسائی برا مانتی ہے
باہر آ جاؤں تو تنہائی برا مانتی ہے
میری نادانی دکھاتی ہے کرشمے جب بھی
صاحب وقت کی دانائی برا مانتی ہے
ماہ و انجم کی سواری پہ نکلتا ہوں جب
دشت افلاک کی پہنائی برا مانتی ہے
بحر کی تہہ میں اترتا ہوں خزانوں کے لئے
یہ الگ بات کہ گہرائی برا مانتی ہے
جب مرے زخم مہکتے ہیں تو طارقؔ صاحب
ابن دوراں کی مسیحائی برا مانتی ہے

غزل
گھر میں بیٹھوں تو شناسائی برا مانتی ہے
طارق متین