گھر کو اب دشت کربلا لکھوں
آج خود اپنا مرثیہ لکھوں
سادہ کاغذ پہ خون کے آنسو
اب اسے خط میں اور کیا لکھوں
برگ گل پر صبا کے دامن پر
نام تیرا ہی جا بجا لکھوں
ذکر آئے جو تیری منزل کا
چاند سورج کو نقش پا لکھوں
ہو ترا ہی جمال پیش نظر
جب قلم سے خدا خدا لکھوں
میں تو زندہ ہوں مر چکا ہے وہ
اپنے قاتل کا مرثیہ لکھوں
اے سروشؔ اپنی زندگی کو میں
کون سے جرم کی سزا لکھوں

غزل
گھر کو اب دشت کربلا لکھوں
رفعت سروش