گھر کی دیواروں کو ہم نے اور اونچا کر لیا
شور صد محشر سنا اور خود کو بہرا کر لیا
بند نافہ کی طرح رہتے ہیں اپنے آپ میں
اپنی خوشبو سے معطر دل کا صحرا کر لیا
درد مہجوری کا آئینہ ہے اپنے روبرو
جب نظر آیا نہ تو اپنا تماشا کر لیا
در پہ ہر امید کے پھیلا دیا دامان دل
کج کلاہ زندگی نے خود کو رسوا کر لیا
ہم سمجھتے ہیں ترے ملبوس کی توقیر کو
داغ عریانی نظر آیا تو پردا کر لیا
جب کوئی صورت نظر آئی نہ ہنسنے کی ندیمؔ
غم کی ہر تصویر کو آنکھوں میں یکجا کر لیا

غزل
گھر کی دیواروں کو ہم نے اور اونچا کر لیا
صلاح الدین ندیم