گھر کے دروازے کھلے ہوں چور کا کھٹکا نہ ہو
بے سر و سامان کوئی شہر میں ایسا نہ ہو
تیرگی کے غار سے باہر نکل کر بھی تو دیکھ
اس زمیں کی کوکھ سے سورج کوئی نکلا نہ ہو
میں کہ گویا بھی نہ ہو پایا کسی دیوار سے
رہ گیا چپ سوچ کر شاید کوئی سنتا نہ ہو
دشت میں جانے سے پہلے اپنے دل میں جھانک لو
خوبصورت جسم کے اندر کوئی کوئی صحرا نہ ہو
احتیاطاً دیکھ ہی لو دم بخود کیوں رہ گئے
تم جسے دیوار سمجھے ہو وہ دروازہ نہ ہو
میں کہ دنیا کی ہر اک شے میں ہوا ہوں آشکار
دیکھ تیرے آئنے میں بھی مرا چہرہ نہ ہو
موڑ ہیں ہر ہر قدم پر کس سے پوچھیں راستہ
پھر رہا ہوں شہر میں جیسے کوئی دیوانہ ہو
یہ اکیلا پن تو شاہدؔ شہر کا آشوب ہے
یا کوئی تنہا نہ ہو یا ہر جگہ ویرانہ ہو
غزل
گھر کے دروازے کھلے ہوں چور کا کھٹکا نہ ہو
سلیم شاہد