گھر کے اندر بھولی بھالی صورتیں اچھی لگیں
مسکراتی گل کھلاتی رونقیں اچھی لگیں
جب سسکتی رینگتی سی زندگی دیکھی کہیں
پھر خدا کی دی ہوئی سب نعمتیں اچھی لگیں
ایک دل سے دوسرے دل تک سفر کرتے رہے
رہ گزار شوق میں یہ ہجرتیں اچھی لگیں
دھوپ کے لمبے سفر سے لوٹ کے آئے جو گھر
بند کمرے میں سکوں کی ساعتیں اچھی لگیں
دل کی دنیا حسرتوں کے دم سے ہی آباد ہے
گاہے گاہے ہم کو اپنی حسرتیں اچھی لگیں
جن گھروں میں عظمت رفتہ کے روشن تھے چراغ
ان کے بام و در ہمیں ان کی چھتیں اچھی لگیں
عیب اپنے چہرے کا کس کو نظر آیا عبیدؔ
آئنے میں سب کو اپنی صورتیں اچھی لگیں

غزل
گھر کے اندر بھولی بھالی صورتیں اچھی لگیں
عبید الرحمان