گھر جلا لیتا ہے خود اپنے ہی انوار سے تو
کاٹ دیتا ہے زمیں سایۂ دیوار سے تو
اس قدر تیز نہ چل سانس اکھڑ جائے گا
طے نہ کر راہ طلب ایک ہی رفتار سے تو
گوشۂ دل کی خموشی کا تمنائی میں
اور ہنگامے اٹھا لایا ہے بازار سے تو
تو ذرا سا بھی اگر فتنہ ہے برپا ہو جا
اپنی قامت نہ بڑھا طرۂ دستار سے تو
آندھیاں اٹھی ہیں وہ دیکھ فلک سرخ ہوا
تودۂ ریگ پہ بیٹھا ہے بڑے پیار سے تو
شب کی تاریکی میں میں نے تجھے پہچان لیا
جب ہویدا نہ ہوا صبح کے آثار سے تو
مدتوں سے تری آنکھوں کے صدف خالی ہیں
اس قدر خوف نہ کھا ابر گہربار سے تو
تذکرے کرتا ہے جلتے ہوئے صحراؤں کے
دشت کو دیکھتا ہے شہر کی دیوار سے تو
منتظر ہے ترا اک عمر سے جنگل شہزادؔ
اس قدر دور نہ رہ اپنے طلب گار سے تو
غزل
گھر جلا لیتا ہے خود اپنے ہی انوار سے تو
شہزاد احمد