گھنی گھنیری رات میں ڈرنے والا میں
سناٹے کی طرح بکھرنے والا میں
جانے کون اس پار بلاتا ہے مجھ کو
چڑھی ندی کے بیچ اترنے والا میں
رسوائی تو رسوائی منظور مجھے
ڈرے ڈرے سے پاؤں نہ دھرنے والا میں
مرے لیے کیا چیز ہے تجھ سے بڑھ کر یار
ساتھ ہی جینے ساتھ ہی مرنے والا میں
سب کچھ کہہ کے توڑ لیا ہے ناطہ کیا
میں کیا بولوں بات نہ کرنے والا میں
طرح طرح کے ورق بنانے والا تو
تری خوشی کے رنگ ہی بھرنے والا میں
دائم، ابدی، وقت گزرنے والا تو
منظر، سایہ، دیکھ ٹھہرنے والا میں
غزل
گھنی گھنیری رات میں ڈرنے والا میں
راجیندر منچندا بانی