گھڑی جیتا گھڑی مرتا رہا ہوں
اسے جاتے ہوئے تکتا رہا ہوں
میں خود کو سامنے تیرے بٹھا کر
خود اپنے سے گلہ کرتا رہا ہوں
جو سارے شہر کا تھا اس کی خاطر
میں سارے شہر سے لڑتا رہا ہوں
میں وقت خانۂ مزدور تھا سو
بہ طور امتحاں کٹتا رہا ہوں
بہت پہچانتا ہوں زاہدوں کو
تمہارے گھر کا میں رستہ رہا ہوں
غزل
گھڑی جیتا گھڑی مرتا رہا ہوں
نعیم ضرار احمد