گھڑی گھڑی نہ مجھے پوچھ ایک تازہ سوال
اداس رات کے سینے پہ اور بوجھ نہ ڈال
کھلے ہیں پھول سخن کے جلی ہے شمع خیال
قفس میں جھانک کے دیکھو قفس زدوں کا کمال
اسی کے ذکر سے ہم شہر میں ہوئے بد نام
وہ ایک شخص کہ جس سے ہماری بول نہ چال
ترے وجود پہ چھا کر تری نظر سے گرے
ہمیں نے راج کیا تھا ہمیں ہوئے کنگال
بچھڑ گیا نہ وہ آخر ادھوری بات لیے
میں اس سے کہتا رہا روز روز بات نہ ٹال
ستم گری کی نئی رسم ڈھونڈ لی اس نے
ہمارے سامنے دیتا ہے دوسروں کی مثال
کبھی جو بیٹھ گئے جا کے دو گھڑی اس پاس
نظرؔ جی! دھل گیا برسوں کا جی سے حزن و ملال
غزل
گھڑی گھڑی نہ مجھے پوچھ ایک تازہ سوال
پریم کمار نظر