EN हिंदी
گھبرا گئے ہیں وقت کی تنہائیوں سے ہم | شیح شیری
ghabra gae hain waqt ki tanhaiyon se hum

غزل

گھبرا گئے ہیں وقت کی تنہائیوں سے ہم

عفت زریں

;

گھبرا گئے ہیں وقت کی تنہائیوں سے ہم
اکتا چکے ہیں اپنی ہی پرچھائیوں سے ہم

سایہ میرے وجود کی حد سے گزر گیا
اب اجنبی ہیں آپ شناسائیوں سے ہم

یہ سوچ کر ہی خود سے مخاطب رہے سدا
کیا گفتگو کریں گے تماشائیوں سے ہم

اب دیں گے کیا کسی کو یہ جھونکے بہار کے
مانگیں گے دل کے زخم بھی پروائیوں سے ہم

زریںؔ کیا بہاروں کو مڑ مڑ کے دیکھیے
مانوس تھے خزاں کی دل آسائیوں سے ہم