EN हिंदी
گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم | شیح شیری
gesu se ambari hai saba aur saba se hum

غزل

گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم

ظہیرؔ دہلوی

;

گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
مہکی ہوئی ہے آج ہوا اور ہوا سے ہم

شوخی سے ایک جا تجھے دم بھر نہیں قرار
بے چین تجھ سے تیری ادا اور ادا سے ہم

آرائشوں سے کشتن عاشق مراد ہے
ہوتی ہے پائمال حنا اور حنا سے ہم

ہم سے وصال میں بھی ہوئے وہ نہ بے حجاب
لپٹی رہی بدن سے ردا اور ردا سے ہم

کس منہ سے ہاتھ اٹھائیں فلک کی طرف ظہیرؔ
مایوس ہے اثر سے دعا اور دعا سے ہم