گیسوئے شعر و ادب کے پیچ سلجھاتا ہوں میں
ظلمت شب میں پیام صبح نو لاتا ہوں میں
بربط دل کے مرے نغمے نہیں شعلے ہیں یہ
گرمئ احساس سے دنیا کو گرماتا ہوں میں
اس جہان آب و گل پر ڈالتا ہوں جب نظر
زندگانی کو سراسر کشمکش پاتا ہوں میں
کیوں نہیں انساں سمجھتا انس کو راہ حیات
شمع کی مانند اس غم میں گھلا جاتا ہوں میں
شعلۂ الفت مدد اے چارہ ساز غم مدد
سرد مہری سے جہاں کی بجھ کے رہ جاتا ہوں میں
یہ کتاب زندگی بھی چیستاں سے کم نہیں
ہر ورق میں داستاں در داستاں پاتا ہوں میں
قدر دانی کی امیدیں کم نگاہی کے گلے
آدمی کو آدمی سے بے خبر پاتا ہوں میں
دیکھنا جود و کرم ان کا خدائی بخش دیں
اپنا دامن دیکھ کر اے تاجؔ شرماتا ہوں میں
غزل
گیسوئے شعر و ادب کے پیچ سلجھاتا ہوں میں
ظہیر احمد تاج